تنہائی کیوں ذہن و دل پر اتنا شور مچاتی ہے
سانسوں کی آواز بھی تو کمرے سے باہر جاتی ہے
کھلی فضا میں شہر کے بچے دوڑ رہے ہیں کھیتوں میں
الٹی بیڑی منھ میں ڈالے نانی دھواں اڑاتی ہے
ایڑی پر بل ڈالے جھانکتی ہیں آنکھیں دیوار کے پار
کچی سڑک کے آخری موڑ کی دھول بہت چونکاتی ہے
بڑی دکانوں میں چیزوں کے دام نہیں دیکھے جاتے
کم پیسوں والی مٹھی پورا بازار گھماتی ہے
پاگل لڑکی ساون رت میں گھر سے دور نکل آئی
جسم پسینے میں ڈوبا ہے اوپر سے برساتی ہے
رُوٹ کی آخری بس کے دروازے پہ پھنسی اک بے بس لڑکی
سیڑھی پر ہر رگڑ کو گالی دے کر جسم چراتی ہے
میں جس شور سے اپنے مطلب کی لہریں محفوظ کروں
وہ آواز مرے ہمزاد کے گونگے پن کی ساتھی ہے
غزلوں کے منظر نامے سے حال کی عکاسی جھلکے
یہ کوشش دلشادؔ مرے مستقبل کی بھی ساتھی ہے