پرانا غم نئے ذوق نظر تک آ گیا ہو گا
کوئی نازک سا لمحہ چشم تر تک آ گیا ہو گا
اجالوں کو مخاطب کرنے والے جانتا ہوں میں
ستارہ رہبری کرتا سحر تک آ گیا ہو گا
مجھے معلوم ہے اس دیوتا کی عظمتیں ساری
وہ پتھر تھا کسی دستِ ہنر تک آ گیا ہو گا
کسی کے چھوڑ جانے سے کہیں رستے بدلتے ہیں
جو زخم دل تھا پہلوئے جگر تک آ گیا ہو گا
کیوں اتنے طیش میں ہیں صاحب دیوان پھر شاید
کلام مبتدی اہل نظر تک آ گیا ہو گا
شریف النفس انساں یک بیک آمادۂ وحشت
سبب کچھ بھی ہو، پانی اب کہ سر تک آ گیا ہو گا
بھلا مٹی کی مقنا طیسیت ایسے ہی چھوڑے گی
وہ ہجرت کرتے کرتے خود ہی گھر تک آ گیا ہو گا
ابھی درس خرد مندی کے دن تھے آشیانے میں
جنوں کا زور ننھے بال و پر تک آ گیا ہو گا
یہ تجدید وفا کا ہے لہو دلشادؔ نظمی، یا
کوئی بار ندامت سنگ در تک آ گیا ہو گا