جزیرے ڈوب گئے ایسے خوش گمانوں کے
ثبوت بھی نہ رہے سرخ رو چٹانوں کے
ہوائے وقت نے تاریخ ہی بدل ڈالی
نشان مٹتے گئے معتبر گھرانوں کے
جہاں سے گز رے ہزاروں دِلوں کو جیت لیا
عجیب قافلے نکلے تھے ساربانوں کے
پلٹ کے دے نہیں سکتے جواب کوڑوں کا
اگرچہ ہاتھ میں چابک ہیں کوچوانوں کے
تمام رات وہ کا غذ کے پُل بناتا ہے
تصوروں کے، قیاسوں کے اور گمانوں کے
خدا کی یاد بھی از راہ مصلحت آئی
قریب آنے لگے دن جو امتحانوں کے
زمیں کی چال سے دلشادؔ جو ہیں نا واقف
پتے تلاش کریں وہ نہ آسمانوں کے