خارج از امکان ہوتی بھی نہیں ہے
زندگی آسان ہوتی بھی نہیں ہے
غیرتیں شاید بھنور میں پھنس گئی ہیں
خامشی طوفان ہوتی بھی نہیں ہے
ہیں مناظر بے حسی کے حاشیوں پر
اب نظر حیران ہوتی بھی نہیں ہے
آبیاری میں لگی ہیں کب سے عمریں
ریت نخلستان ہوتی بھی نہیں ہے
تھک گئے مقتل میں بازو تیرگی کے
روشنی بے جان ہوتی بھی نہیں ہے
دو دہائی، مٹھی بھر غزلوں کی پونجی
قابل دیوان ہوتی بھی نہیں ہے
ہے دریچہ منتظر دلشادؔ نظمی
پر گلی سنسان ہوتی بھی نہیں