اپنی قیمت نہ لگائے کوئی دستار کے ساتھ
جس کو جانا ہو چلا جائے خریدار کے ساتھ
میرے قبضے میں تھی دکھتی ہوئی رگ دشمن کی
اس لڑائی کا تعلق نہ تھا ہتھیار کے ساتھ
مسئلہ ابھرے تو ہمسائے گی میں حل ڈھونڈو
جوڑ ایسا رہے دیوار کا دیوار کے ساتھ
گھر سے نکلا تھا کبھی ماں کی دعائیں لے کر
آج لوٹا تو دعا ہی ملی دیدار کے ساتھ
شیخ جی آپ، اچانک، یہاں میخانے میں
یا خدا خیر تو ہے، مجھ سے گنہگار کے ساتھ
اس تعلق سے نہ دھندلی ہوں گھروں کی قدریں
اتنی پہچان بھی اچھی نہیں بازار کے ساتھ
مجھ سے کرتے رہیں، جی چاہے تو جی بھر کے مذاق
چھیڑ خانی نہ کبھی کیجیے پندار کے ساتھ
قوت بازو پہ تکیہ نہیں کرتے دلشادؔ
تجربہ چاہیے تھامی ہوئی پتوار کے ساتھ