مورخ عظمت رفتہ کی جب تفسیر تک پہنچا
مرے کشکول کا شجرہ مری جاگیر تک پہنچا
تکبر انکسار ذات کی تنویر تک پہنچا
میں اک چٹان تھا ٹو ٹا تو پھر تعمیر تک پہنچا
ہماری بے حسی جب مصلحت کی پشت پر آئی
ہمارا پاؤں خود ہی حلقۂ زنجیر تک پہنچا
فلک بوسی دھماکوں سے ہوئی تھی سرنگوں لیکن
دھواں بغداد، کابل، وادیِ کشمیر تک پہنچا
کماں رکھ دی مرے دشمن نے لا کر میرے قدموں پر
مرا جوش شہادت خود مچل کر تیر تک پہنچا
کبھی خاموشیاں دلشادؔ نظمی مجھ میں در آئیں
کبھی آواز کا پتھر مری تشہیر تک پہنچا