مرے لہجے میں اپنا زہر بھرتی جا رہی ہے
مگر دنیا مری آواز سے گھبرا رہی ہے
تری نیچی نگاہیں جھانکتی ہیں اپنی بغلیں
مری سچائی تیرے جھوٹ کو شرما رہی ہے
اندھیرا چاہتا ہے ہمسفر ہو جائے لیکن
شرافت شام سے پہلے ہی واپس آ رہی ہے
سمندر چین سے لیٹا ہوا ہے ساحلوں پر
ندی بِرہن بنی ہر موڑ پر بل کھا رہی ہے
چراغوں کو بجھا کر بھی ہوائیں خوش کہاں ہیں
شرارت جگنوؤں کی راستہ دکھلا رہی ہے
میں اپنی خواہشوں کی قبر میں اوندھا پڑا ہوں
کوئی حسرت مجھے اندر ہی اندر کھا رہی ہے
ابھی تک آگ کے دریا میں رشتے جل رہے ہیں
مہاجر بن کے تنہائی بہت پچھتا رہی ہے
سپیرے لے کے سانپوں کو حکومت کر رہے ہیں
سیاسی بھوکی ناگن اپنے بچے کھا رہی ہے
لڑکپن پھر مجھے دلشادؔ نظمی یاد آیا
جھری سے کوئی لڑکی آئینہ چمکا رہی ہے