ناقد کی طرح اپنی ہی تحریر سے کھیلو
پھر مصرعۂ غالب، سخنِ میر سے کھیلو
یہ طوق کرائے کے محافظ کی عطا ہے
گھر بیٹھے رہو حلقۂ زنجیر سے کھیلو
بکھرے رہے تنکوں کی طرح موج انا میں
اب وقت کے بہتے ہوئے شہتیر سے کھیلو
ہونٹوں پہ تبسم کی لکیریں سرِ محفل
تنہا جو رہو نالۂ دلگیر سے کھیلو
دلشادؔ مسائل کا سلجھنا ہے ضروری
فرصت جو ملے زلف گرہ گیر سے کھیلو