سخن معصوم سا، لفظوں میں جادو لے کے آتی ہے
وہ اک تحریر جو مٹی کی خوشبو لے کے آتی ہے
اکیلی چھت کے دامن سے سمیٹے سوکھے کپڑوں کو
ہے کیسی یاد جو کمرے میں آنسو لے کے آتی ہے
خدا روشن کرے اس کا گھرانہ اس کے قدموں سے
میری بیٹی ابھی مٹھی میں جگنو لے کے آتی ہے
تھرکتے ہیں غبار دشت میں وحشی صفت سائے
نشانے پر ہوس مظلوم آہو لے کے آتی ہے
تھکن کی واپسی ہر شب اپاہج کی طرح لیکن
ضرورت صبح دم پھر دست و بازو لے کے آتی ہے
ایک ایسی لَے کہ جس کی دھن پہ فاقے رقص کرتے ہیں
ایک ایسی تھاپ جو پیروں میں گھنگھرو لے کے آتی ہے
میں جب بھی عمر کی الجھی لٹیں دلشادؔ سلجھاؤں
ہوائے وقت کیوں پُر پیچ گیسو لے کے آتی ہے