اپنی آوارگی صبح سے شام تک مختلف راستوں سے گزرتی رہی
چمنیوں سے دھواں روز اٹھتا رہا، زندگی پستیوں میں اترتی رہی
جنگ سے لوٹ کر اک اپاہج بدن اس محلے میں قصے سناتا کسے
جس محلے کی خوں ریز تصویر خود، سرحدی جنگ کو مات کرتی رہی
لوٹتے وقت گاڑی کی کھڑکی پہ میں اپنے لوگوں میں تھا اجنبی کی طرح
ان کی بھولی سی بچی اشارے مگر دور تک ننھے ہاتھوں سے کرتی رہی
شہر پُر امن ہے، سب ہے معمول پر، ایک طوفان آ کر گزر بھی گیا
ہاں مگر ایک عرصے تلک نیند بھی ایک ہلکی سی آہٹ سے ڈرتی رہی
یوں تو دلشادؔ ہم اس بڑے شہر میں، اجنبی کی طرح بس گئے ہیں مگر
عمر بھر ذہن کے کینوس پر وہی ایک چھوٹی سی بستی ابھرتی رہی