جھیل کر صدموں کو پھر ہنسنے کی تیا ری کرو
یوں مسیحاؤں کی بستی میں اداکاری کرو
آبلے کھل کر بھی نہ رو پائے، کہ آئی صدا
حکم ہے یہ ما بدولت کا سفر جاری کرو
جھوٹ جب ہر زاویے سے خود کو منوانے لگے
احتیاطاً سچ کی خاطر تھوڑی مکاری کرو
یہ سخن فہموں کی بستی ہے پرکھ ہو جائے گی
کون کہتا ہے کہ تم میری طرفداری کرو
وقت بچوں سے کھلونے چھین کر کہنے لگا
جنگ یہ نسلوں کی ہے لڑنے کی تیاری کرو
کاندھے شل ہونے لگے ہیں زندگی کے بوجھ سے
پر ضرورت کہہ رہی ہے وزن کچھ بھاری کرو
جانتا ہوں امتحاں دلشادؔ نظمی ہے ابھی
پھر برائے امتحاں اپنا سفر جاری کرو