خالق ارض و سما حمد بیاں ہو جائے
تیری مدحت کے لیے وقف زباں ہو جائے
مانگنے کا تو سلیقہ ہی نہیں ہے مجھ کو
میرے اشکوں سے طلب میری عیاں ہو جائے
تیرے کلمے کے سوا کچھ بھی نہ ہو رختِ سفر
کلمۂ حق میری منزل کا نشاں ہو جائے
تیری منشا ہو تو صدیوں کا سفر بھی آساں
اور غضب سے تیرے لمحہ بھی گراں ہو جائے
پانچ وقتوں کی رہے حاضری تیرے در پہ
اپنا گھر چھوڑ دوں جس وقت اذاں ہو جائے
ذہن و دل کے نہاں خانوں میں اجالا بھر دے
اور جو غیر ضروری ہو دھواں ہو جائے
وہ بصارت دے کہ پہچان سکوں راہ وفا
دے بصیرت کہ مرا عزم جواں ہو جائے
مشعل دین دے دلشادؔ کے ان ہاتھوں میں
ساری دنیا میں فقط امن و اماں ہو جائے