مجھ کو نچانا چاہتا ہے اپنی تال پر
وہ بھی تو خرچ ہو گا مرے استعمال پر
بے چین کیوں ہے ذہن کے سفلی سوال پر
لاحول پڑھ کے پھونک دے اپنے خیال پر
بھرتا نہیں ہے رزق کا سوچا ہوا گڑھا
غصہ زمین پر ہے کہ اپنی کدال پر
اب تیسرے کسی کی اسے کچھ خبر نہیں
گاہک پہ ہے نگاہ کبھی اپنے مال پر
اس کام کے علاوہ بھی کچھ اور شغل ہیں
لڑکی نے میز چھوڑ دی مخصوص کال پر
لمحوں کے سامنے تھا نئی نسل کا عروج
تہذیب رو رہی تھی صدی کے زوال پر
حالات نے پچھاڑ دیا ایک آن میں
دلشادؔ کتنا خوش تھا گذشتہ کمال پر