عمر بھر خواب کی تعبیر کا ایقان کیا
مجھ کو اک شخص کی عادت نے پریشان کیا
دیکھتے دیکھتے دنیا نے فراغت پا لی
پھر زیادہ کی ہوس نے مرا نقصان کیا
جیتنے والی ہی تھی جنگ صف اول، بس
پشت کی سمت نے پسپائی کا اعلان کیا
مَل دی آ کر مرے گالوں پہ محبت کی ابیر
عید گھر آئے شری مان نے جل پان کیا
ایسے منصب کی غلامی کو توقع نہیں تھی
باندی ء شب کی عنایات نے سلطان کیا
میرے دشمن نے کی امداد چھپا کر سب سے
یار نے خوب دکھاوے بھرا احسان کیا
کتنی آسانی سے دلشادؔ کو الجھایا گیا
اس کی مشکل کو بھی مشکل سے ہی آسان کیا