ربط ہی نہیں رکھتے بے ضمیر لوگوں سے
آپ چاہتے کیا ہیں ہم فقیر لوگوں سے
دے رہے ہیں رہ رہ کر درس امن دنیا کو
کیا اُمید رکھتے ہیں ان شریر لوگوں سے
اُس سنہرے ماضی کی سب کرامتیں تسلیم
ہے اُمید اب مجھ کو زندہ پِیر لوگوں سے
عزم گر مصمم ہو بیڑیاں بھی کٹ جائیں
کہہ دے کوئی جا کر یہ اب اسیر لوگوں سے
آپ کا سخن ہو گا ہر نظر میں مستحکم
ربط کیوں نہیں رکھتے نا گزیر لوگوں سے
ہے غریب لوگوں کی دسترس میں عزت ہی
واسطہ نہیں اس کا ہاں امیر لوگوں سے
تجربہ ضروری ہے جیت کے لئے دلشادؔ
بھیڑ ہی تو بنتی ہے بس کثیر لوگوں سے