فریب کھا بھی ہم نے یہاں سنوارے دن
منافقوں میں رہے شان سے گزارے دن
نصیب عشق تھا میراؔ کا دربدر ہونا
سہاگ رات کے سپنے تھے اور کنوارے دن
تمام رات بدن کروٹوں میں جاگے گا
جوانی سو کے گزارے گی دن کو سارے دن
عجب ہے آج کے سورج کی سست رفتاری
جو شام آئے تو اپنی تھکن اُتارے دن
میں گن رہا تھا کبھی بھیگی انگلیوں سے جنہیں
کہاں گئے وہ مری عمر کے کرارے دن
مصالحت کبھی شب خون مارتی ہی نہیں
مزاحمت پہ کبھی تو مجھے اُبھارے دن
جو واقعات ہیں دلشادؔ سارے گڈ مڈ ہیں
بتاؤں کیا تمہیں کیسے کٹے ہمارے دن