ضرورتوں سے زیادہ کا بوجھ اُٹھاتے ہوئے
میں خود سے لڑتا رہا آستیں چڑھاتے ہوئے
بجز سکوں کبھی حصے میں کچھ نہیں آیا
وہ خرچ ہوتا رہا عمر بھر کماتے ہوئے
نگاہیں کھڑکی سے چھنتی ہوئی سی لگتی ہیں
کوئی ہے جو اُسے تکتا ہے آتے جاتے ہوئے
وصال و ہجر کی یکساں ہے کوئی کیفیت
وہ دور جانے لگا ہے قریب آتے ہوئے
گھرا ہوا تھا بزرگوں کے رشتہ داروں میں
لپٹ کے روتا رہا ہر کوئی رُلاتے ہوئے
کسی کو مصلحتاً پھیرنا پڑا چہرہ
کسی کی آنکھوں میں آنسو تھے جھلملاتے ہوئے
خود اپنے آپ کو دلشادؔ آزمانے میں
میں خود ہی ٹوٹ گیا آئینہ بناتے ہوئے