بھلا کتنے دنوں تک جی سکو گے ایسے منظر میں
مہاجر کی طرح رہنا پڑے جب اپنے ہی گھر میں
منافق ہار میں تبدیل کر دیتا ہے ہر بازی
بھگوڑے جنگ کا نقشہ بدل دیتے ہیں پل بھر میں
یقیناً زاویئے بھی مختلف سمتوں میں بھٹکیں گے
اگر پرکار خود بے چین ہو گا اپنے محور میں
پرانی کو ملی میلی نگاہوں سے ذرا راحت
نئی لڑکی کو عہدہ مل گیا ہے آج دفتر میں
ہمیشہ مصلحت ہی آڑے آ کر روک لیتی ہے
جنوں جب باندھنے آ جا تا سہرا مرے سر میں
اب ایسی فوج سے اُمید کیسی فتح یابی کی
جہاں مال غنیمت لُو ٹنا مقصد ہو لشکر میں
خوشامد لفظ کو دلشادؔ میں شامل نہیں رکھتا
ملے گا میرے حصے کا، اگر ہو گا مقدر میں