دباؤ پڑتا ہے صرف انگلی کے سر کے آگے
کلک کی آواز اور سب کچھ نظر کے آگے
پلٹ گئے تو وہی تعاقب ڈرے گا ورنہ
تمہاری جد و جہد بھی دوڑے گی ڈر کے آگے
مرے سفر کو یہ آس آوارہ کر رہی ہے
کہ ہو نہ ہو اک پڑاؤ ہے رہگزر کے آگے
یہ کوئی تکمیل کے مراحل کا تجربہ ہے
یا گیلی مٹی کا ڈھیر ہے کوزہ گر کے آگے
وہ شب دریچے میں اتفاقاً ہی آ گیا تھا
ہتھیلیوں کے ہلال میں چاند بھر کے آگے
سفر کے دوران نا مکمل سا اک تعارف
بغیر کچھ بولے چل دیا وہ اتر کے آگے
وہ لا ابالی تھی سارے دن در بدر ہوئی تھی
یہ شب تھکن ہے جو روک لیتی ہے گھر کے آگے
نگاہیں نیلام کرنے لگتی ہیں کینوس کو
میں ہوں تماشائی سا خود اپنے ہنر کے آگے
وہ ایک مدت سے تجربہ مجھ پہ کر رہا ہے
کہ سر جھکا دے کبھی تو دلشادؔ شر کے آگے