کتاب، لفظ، سبق، امتحان بھی میرا
ہتھیلیوں پہ چھڑی کا نشان بھی میرا
یقیں تو اس سے بھی آگے کی کوئی منزل ہے
پہنچ سکا نہ جہاں تک گمان بھی میرا
کوئی زباں پس دیوار تھی خلاف اگر
گناہ میں تو ملوث تھا کان بھی میرا
وہ زخم دے کے مجھے خوش ضرور ہے لیکن
ستا رہا ہے اسے اطمینان بھی میرا
ہر اک گواہ مخالف سے جا ملا آخر
میرے خلاف ہوا پھر بیان بھی میرا
پھر ایسی بزم کا احسان کیوں اٹھاؤں میں
جہاں کسی کو نہ آئے دھیان بھی میرا
اس انتظار کی دلشادؔ میں سزا کاٹوں
کہ گھر بنے گا کسی دن مکان بھی میرا