مذہب دل کے طرفدار دلشاد نظمی کا تخلیقی منظر نامہ حسّاس آبادیوں کی آماجگاہ ہے اکثر یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ اب رشتوں کے بازار میں خوف اور رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ پیغمبری اب نا پید سمجھ لیجیئے۔ صوفی صفات والے افراد بھی پاس آ کراپنی کشش کھونے لگے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم مقصدِ حیات اور مقصدِ کائنات کی تفریق کو سمجھنے سے قاصر ہو چکے ہیں، حالانکہ غیر مشروط معاملے ہی ہمیں عشق کی معنویت سے مزین کر سکتے ہیں، دلشاد نظمی نے وقت کی آہٹ کو غور سے سنا ہے اور اپنے نئے تخلیقی بیانیہ میں کچھ یوں جلوہ افروز ہوئے ہیں
لکیروں کو نئی ترکیب سے اُلجھا رہا ہے
مگر ہر زاویہ مرکز پہ واپس آ رہا ہے
وہ نقطہ دائرے میں ہو گیا ہے قید شاید
حصار ذات سے باہر اُجالا چھا رہا ہے
دلوں کی بات سجا کر زبان تک لانا
ہے متن سخت سمجھ کر بیان تک لانا
میں ایک نقطہ ہوں دلشادؔ، زاویے کے لیے
لکیر کھینچ، مجھے بھی نشان تک، لانا
پھر یہ زاویہ بھی ہے کہ
اتنا آساں نہیں تنہائی کے قابل ہونا
ہجر لمحوں میں مرے دل کا ہوا دل ہونا
ایک اک پل ترا احساس ہے زندہ مجھ میں
غیر ممکن ہے تری یاد سے غافل ہونا
کوئی ایک لمحہ رقم نہیں، ،، ، سے گزرتے ہوئے ہم دلشاد نظمی کی نئی عصری معنویت کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں، تو پتہ چلے گا کہ دور مسیحائی میں ان کی شاعری ہر شخص کی نیم بیہوشی کو مکمل بیداری سے تعبیر کر سکتی ہے
شہر گم صم سا ہوا کیوں مرے آ جانے سے
میں نے کیا چیز اُٹھا لائی ہے ویرانے سے
حاکم شہر کی دہلیز پہ سجدوں کے نشاں
کیا کوئی رسم نکل آئی ہے بت خانے سے
اس لئے ایسے میں اگر اردو کی وسیع شعری کائنات کا احتساب کیا جائے تو بعض فنی نکات سے مزیّن شاعری متعدد شعراء کے یہاں مل جاتی ہے مگر ضروری نہیں کہ شعری ڈکشن کی وجہ سے بھی تخلیقات زندہ و پائندہ رہ سکیں، ظاہر ہے یہ ایک مشکل ترین فن ہے، آتش نے کہا بھی تھا کہ
بندشِ الفاظ جڑنے میں نگوں سے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
صدیوں کے سفر کے بعد بھی اگر کوئی تخلیق عصری معنویت بر قرار رکھنے میں کامیاب ہے تو پھر آفاقیت کا پیمانہ بھی یہی بن جاتا ہے، آج غالب میر مومن ذوق اقبال آتش کے بعد فیض احمد فیض، سردار جعفری، کلیم عاجز، احمد فراز، جون ایلیا، منیر نیازی، ناصر کاظمی، شہر یار، ندا فاضلی اور پروین شاکر وغیرہ کی معنویت اس لیے بھی تابندہ ہے کہ عصری معنوی فطری اور شخصی اختصاص کا حسین امتزاج بدرجہ اتم موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ فکری معنوی اور تخلیقی مرصع سازی کے زیر اثر فن پارہ کو شہہ پارہ بننے میں ایک عمر گزر جاتی ہے، آج کل نئی دنیا سمٹ گئی ہے اس لئے ہر شعبے میں عجلت نظر آتی ہے بعض معاملات تو کاروباری ہیں اس لیے بازار کی مجبوری ہے مگر تخلیقی عمل کا تعلق قدرت کی رضا پر ہے، یہاں عجلت کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے ذی فہم تخلیق کار اب بھی تخلیق کے فطری عمل پر ہی ایمان رکھتا ہے اور وہ دل کی آواز پر ہی لبیک کہتا ہے، ایسی ہی ایک منفرد آواز ہے رانچی جھارکھنڈ کی سر زمین کے شاعر دلشاد نظمی کی، پہلے دلشاد نظمی کے چند اشعار آپ ملاحظہ فرمائیں تا کہ میری بقیہ گفتگو کو تقویت حاصل ہو
بھٹکوں میں راہ عشق میں لطفِ سفر نہ ہو
برباد ہو نہ جاؤں ترا غم اگر نہ ہو
رکنے نہ دینا اپنے اُمیدوں بھرے قدم
ایسی کوئی بھی شب نہیں جس کی سحر نہ ہو
غرض نہیں مجھے سیلاب کی روانی سے
ندی چٹان کو کاٹے گی میٹھے پانی سے
اب ایرے غیرے کو ترجیح تو نہیں دوں گا
مقابلہ بھی کروں گا تو خاندانی سے
ایڑیاں اُونچی کیے وہ قد بڑھانے لگ گئے ہیں
مجھ کو اس منزل تک آنے میں زمانے لگ گئے ہیں
جس قدر بھی پی لے کوئی مسئلہ تو ظرف کا ہے
لوگ تو دو گھونٹ میں ہی ڈگمگانے لگ گئے ہیں
یوں تو میں دلشاد نظمی کے طرز تخاطب سے واقف تھا، معیاری اور ادبی نوعیت کے مشاعرے، کوی سمیلن میں اکثر ساتھ رہا، ان کے انداز اور فکری میلان نے اہل ذوق کو ہمیشہ متاثر کیا ہمارے یہاں مشاعرے اور ادب کو اکثر دو مختلف خانے میں تقسیم کر دیا جاتا ہے، اس لیے مشاعرے کے وسیلے سے اپنی پہچان بنانے والے بیشتر شعراء ادب میں زندہ نہیں رہے مگر ادب کے حوالے سے پہچانے جانے والے شعراء کرام دونوں جگہوں پر زندہ و تابندہ ہیں، دلشاد نظمی کے یہاں ایسا کوئی تضاد نہیں ملتا، یہی وجہ ہے کہ ادب اور مشاعرے میں یکساں طور پر ان کی شاعری نے معیار سازی کی ہے لب و لہجہ وقت کی سیچویشن کے مناسبت سے کبھی نہیں تبدیل کیا، انہیں بخوبی یہ اندازہ رہا ہے کہ قارئین ناظرین یا سامعین کی بہتر معیار سازی کی ذمہ داری بھی تخلیق کار کی ہی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو آج بھی سب سے زیادہ غالب عوامی طور پر مقبول نہیں ہوتے، در اصل اپنی علمی تخلیقی تصوراتی محرومی کو ہم معیار کی سطحیت تعبیر کرنے لگے ہیں، ظاہر ہے جہاں سلیقے سے بات کہنے کے ہنر کا فقدان ہوتا ہے وہاں کوئی بات سنی بھی نہیں جاتی ہے، کلیم عاجز بھی شدت سے معترف رہے کہ
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہیے
میں نے دلشاد نظمی کو پڑھتے ہوئے سنتے ہوئے بھی بارہا محسوس کیا ہے کہ وہ بات کہنے کے سلیقے سے بخوبی واقف ہیں، ساتھ ہی وہ کبھی اعتماد کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے، شاعری کا وصف برقرار رکھتے ہوئے اپنا لہجہ بھی سہل رکھتے ہیں۔ اسی لیے نئی حساس آبادیوں میں بھی خندہ پیشانی سے قبول کیے جاتے ہیں
مرا عروج کی صورت زوال کر رہے ہیں
خود اپنے لوگ مجھے پائمال کر رہے ہیں
سوال کر نہیں سکتے مرید کے فاقے
ابھی تو حجرے میں مرشد خِلال کر رہے ہیں
اوریوں بھی مخاطب ہوتے ہیں کہ
صرف دشمن کو تباہی کا سبب جانتے ہیں
آپ اپنوں میں منافق نہیں پہچانتے ہیں
مانتے ہی نہیں احکام خداوندی کو
اور کہتے ہیں اللہ کو ہم مانتے ہیں
پھر شکوہ بہ لب ہونے کا یہ انداز بھی خوب ہے
مرے سخن کو سزا میرے یار دے رہے ہیں
زبان والے ہی مرتد قرار دے رہے ہیں
وہ چاہتے ہیں رہوں عمر بھر میں شرمندہ
جو حق بھی بھیک کی صورت اُدھار دے رہے ہیں
شعری محاسن کا ذکر یہاں ناگزیر اس لیے ہو جاتا ہے کہ دلشاد نظمی نے اپنے متن کو برتنے میں قطعی طور پربے جا فنی مزاحمت سے کام نہیں لیا ہے پھر بھی پُر اثر ترسیل میں کامیاب اس لیے نظر آ تے ہیں کہ صنف کے اوصاف اور اس کی اثر انگیزی کا بہتر شعور رکھتے ہیں جن سے کہیں بھی اس کا حسن زائل نہیں ہوتا، غزل کی ایک دھیمی سی آنچ ہی تو ہوتی ہے جو شعر اور غیر شعر کی تفریق بتا جاتی ہے، میرے اس قول کی صداقت کے لیے دلشاد نظمی کے اس رنگ کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے
غزل سناؤ کہ سینے کا کوئی داغ جلے
پھر آنسوؤں سے کسی یاد کا چراغ جلے
یا پھر یہ سند بھی ہے کہ
نشیلی شب ہے تری یاد کی خماری ہے
ترے خیال نے میری غزل سنواری ہے
میں خود کو دیکھتا رہتا ہوں جس کی آنکھوں میں
وہ ایک چہرہ کئی آئینوں پہ بھاری ہے
دلشاد نظمی کی غزلیہ شاعری کا یہ انداز کلاسیکی روایت کے احترام اور عصری معنویت کی بہترین غمازی کرتا ہے غزل کی نئی بستیوں میں تجربے اور مشاہدے کی جگہ جگہ نئی آماجگاہ بھی بن چکی ہے، کہیں کہیں کشش بھی نظر آتی ہے۔ مگر یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ منظر نامہ کب تک روشن رہے گا اگر کسی متن کو پہلے بہتر انداز میں پیش کیا جا چکا ہے تب انداز بیاں پر ہی شعر کی رونق موقوف ہوتی ہے اور اپنے طرز سے نئے عہد کی شاعری پہچانی جاتی ہے، غالب جیسے عظیم المرتبت شاعر کو اپنی زندہ روایت کے تقدس اور بلند قامت ہونے کا احساس تھا مگر اپنی سر بلندی کے باوجود اور وں کی سخنوری کے بھی معترف تھے۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
یعنی یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ شاعری جہاں عمدہ خیالات کی ترجمانی کرتی ہے وہاں طرز کی شگفتگی بھی بے حد معنی رکھتی ہے، دلشاد نظمی نے بھی جا بجا اشعار کو نئی جہت عطا کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھی ہیں، اور بعض مقامات پر وہ اپنے ہم عصروں سے جدا بھی نظر آتے ہیں اور ان کا یہی اختصاص نئے شعری امکانات سے مزین معلوم ہوتا ہے، دلشاد نظمی کا خاصہ یہ بھی ہے کہ وہ پوری دلجمعی سے اپنے اندرون کا احتساب بھی کرتے ہیں ساتھ ہی کسی خوش فہمی کے طرفدار نہیں ہیں اور ان کی یہی راست بیانی نئے منظر نامے کی معتبریت کا پتہ دیتی ہے، جہاں گریز سے بھی مثبت رجحان کا پتہ ملتا ہے اور کوئی محض ساحل کا تماشائی نہیں بنتا بلکہ وہ سمندر کے سفر کو زندگی کی بہترین علامت تصور کرتا ہے
وقت کی شعلہ بیانی سے نکل جائیں گے
ہم بھی اک روز کہانی سے نکل جائیں گے
ڈوبنے والوں کا دیکھے گا تماشہ ساحل
تیرنے والے تو پانی سے نکل جائیں گے
آپ؎کے مصرع ء اُولیٰ کی انا ٹوٹے گی
ہم اگر مصرع ء ثانی سے نکل جائیں گے
ڈاکٹر قاسم خورشید کاکوی، پٹنہ
9334079876