وہی منظر، وہی صحرا، ہوا خاموش بیٹھی ہے
زباں کے خشک ٹیلے پر دعا خاموش بیٹھی ہے
پہاڑوں سے پرے ہے بستیوں میں شور و غل جاری
چٹانوں سے جو پلٹی ہے صدا خاموش بیٹھی ہے
نمایاں مصلحت کے دستخط ہیں صفحہ در صفحہ
مکین حاشیہ میری انا خاموش بیٹھی ہے
ضرورت منہمک ہے فائلوں سے بات کرنے میں
نگاہیں چبھ رہی ہیں اور حیا خاموش بیٹھی ہے
کسی آئینے سے قائم نہیں پہچان کا رشتہ
کمال حسن کی اپنی ادا خاموش بیٹھی ہے
سندیسہ وقت کی دہلیز پہ دستک نہیں دیتا
لہو رونا ہے آنکھوں کو، حنا خاموش بیٹھی ہے
عجب سا حبس ہے دلشاد ہر سو بے نوائی کا
لپٹ کر پتیوں سے کیوں ہوا خاموش بیٹھی ہے