خواب کہاں آنکھوں میں صرف اندھیرا ہونے لگتا ہے
انتم لوکل ٹرین کے بعد سویرا ہونے لگتا ہے
اوپر دوڑتی رہتی ہے اک دنیا رزق جٹانے میں
پل کا نچلا حصہ رین بسیرا ہونے لگتا ہے
اندر پھن کے سامنے مٹھی کا لہرانا کھیل نہیں
جالی کے باہر تو ہاتھ سپیرا ہونے لگتا ہے
کب ملتی ہے نظریں بھر کر چہرہ دیکھنے کی مہلت
منتر پڑھے جاتے ہیں فوراً پھیرا ہونے لگتا ہے
جست لگانا چاہ رہا ہے نو سے ٹھیک اٹھارہ پر
جس کو دیکھو فوراً تین سے تیرہ ہونے لگتا ہے
وہ جو زلفیں لہرائیں تو شب اپنا اعلان کرے
ان کی انگڑائی کے بعد سویرا ہونے لگتا ہے
ایک نظر سے سب کو دیکھتی رہتی ہیں بوڑھی آنکھیں
باپ کے مرتے ہی گھر تیرا میرا ہونے لگتا ہے
اپنے آپ میں پھیلتے رہتے ہیں دلشادؔ نکمے لوگ
محنت کی روٹی سے جسم چھریرا ہونے لگتا ہے