ساحلی کشتیوں کے سِرے باندھ لو، قبل از وقت خاموشیاں، کچھ تو ہے
گر چھٹی حس بھی بیکار شے ہے تو ہو، زرد موسم کی حیرانیاں، کچھ تو ہے
رات بھر روئی دیوار گریہ مگر صبح دم ہو بہو ویسی ہی بن گئی
اس پر اسرار سی زندگی کے ورق کہہ رہے ہیں وہی داستاں، کچھ تو ہے
میرے قدموں سے لپٹی ہوئی الجھنو، فاصلے ہیں ابھی کہ سفر کٹ گیا
دل ہے اندیشۂ قرب منزل میں گُم، ذہن ہے محو وہم و گماں، کچھ تو ہے
وقت کے مقبرے میں قد آور سبھی آئینے ہیں طلسمی فریبوں میں گُم
مومیائے ہوئے جسم کی سلوٹو عکس ہے تم سے کیوں بد گماں، کچھ تو ہے
جب جزیرے میں آسیب نازل ہوئے، نیک اعمال موجوں کو راس آ گئے
گدلے پانی میں قبریں بھی گم ہو گئیں، تیرتی ہیں مگر تختیاں، کچھ تو ہے
نوک نیزہ پہ سر ہے کہ میری انا، مرحلہ جنگ کا ہے نہ امن و اماں
مرے ظل الٰہی پریشان ہیں، کھولتے کیوں نہیں وہ زباں، کچھ تو ہے
میرے اندر کا انسان دلشادؔ اب، چاہتا ہے مجھ ہی سے جواب سخن
عکس دہرا رہا ہے وہی گفتگو آئینہ ہے مگر درمیاں، کچھ تو ہے