کسی پابند جذبے کو کنوارا چھوڑ دیتا ہے
بہت سا فائدہ تھوڑا خسارہ چھوڑ دیتا ہے
لہو کو کھولنے دے نقطۂ جوش شہادت تک
حرارت کم ہو تو نلکی کو پارہ چھوڑ دیتا ہے
نئی بستی کے لوگو، ریت کا میدان مت سمجھو
یہی دریا کبھی اپنا کنارا چھوڑ دیتا ہے
تمھارا وصل تو سیراب کر دیتا ہے پل بھر میں
تمھارا ہجر یادوں کا گذارا چھوڑ دیتا ہے
یہی دلشادؔ کہتے ہیں وطن سے لوٹنے والے
وہ اب بھی تھال میں حصہ ہمارا چھوڑ دیتا ہے