یقیں کے پیچھے چھپا کسی کا گماں ہو شاید
میں اپنا چہرہ کھرچ لوں تو کچھ عیاں ہو شاید
ہیں چہرہ چہرہ علامتیں بد شگونیوں کی
خدا کو مقصود پھر مرا امتحاں ہو شاید
یہ میری پلکوں پہ جلتے بجھتے نمی کے موسم
جو میرے اندر سے اُٹھ رہا ہے دھواں ہو شاید
اے میری خوش فہمیوں زمیں کو جکڑ کے رکھنا
کہ میری مٹھی میں اب جو ہے، آسماں ہو شاید
سوال الجھا ہوا ہے اب تک مباحثوں میں
جواب ہاں اور نہیں کے ہی درمیاں ہو شاید
یہ مجھ سے کہتے ہیں ہجر کے بے زبان لمحے
تمہارے آنے سے وقت کا کچھ زیاں ہو شاید
سیاسی مقتل پہ چل کے دلشادؔ آؤ ڈھونڈیں
کٹے ہوئے بازوُ اپنے اپنی زباں ہو شاید