کئی آوازیں کہنے کو پسِ منظر سے آتی ہیں
جو اندر تک اترتی ہیں وہی اندر سے آتی ہیں
تری یادیں منافق کی طرح ہیں خیمۂ شب میں
بغاوت کی صدائیں نیند کے لشکر سے آتی ہیں
ہے کتنا سخت فوراً ماں بہو بیوی میں ڈھل جانا
تھکی ماندی بے چاری عورتیں دفتر سے آتی ہیں
میں گونگوں کے اشاروں پر بہت ہنستا تھا، کچھ دن سے
کئی بے ربط آوازیں مرے اندر سے آتی ہیں
بہت آہستگی سے کھولتی ہیں در تھکی راتیں
تو صبحیں سلوٹیں چھوڑے ہوئے بستر سے آتی ہیں
بہت کچھ سیکھتا ہے آدمی باہر کی دنیا سے
مگر کچھ عادتیں دلشادؔ نظمی گھر سے آتی ہیں