لکیروں کو نئی ترکیب میں الجھا رہا ہے
مگر ہر زاویہ مرکز پہ واپس آ رہا ہے
وہ نقطہ دائرے میں ہو گیا ہے قید شاید
حصار ذات کے باہر اجالا چھا رہا ہے
مری وحشت کو طعنہ دے رہی ہے یہ خموشی
جنوں صحرا کے تازہ زخم کیوں سہلا رہا ہے
مشینوں کے دھوئیں سے گھٹ رہا ہے دم ہمارا
مگر سانسوں کو وہ ایندھن بھی تو پہنچا رہا ہے
کتابوں کی عبارت لگ رہی ہے دھندلی دھندلی
نظر کے سامنے ہر لفظ کیوں دھندلا رہا ہے
اسی حجرے میں ساری شب گزاری تھی خوشی نے
اسی حجرے کے باہر دن کھڑا پچھتا رہا ہے
کنیزوں سے لپٹ کر بھیگتی رہتی ہے بیگم
حرم خواجہ سرا کی سیج پر اترا رہا ہے
میں اس انعام کو نیلام کرنا چاہتا ہوں
مرا فاقہ زدہ فن آئے دن غش کھا رہا ہے
خود اپنے عکس سے الجھا ہوا دلشادؔ نظمی
عیوب و فن کے سارے قاعدے سمجھا رہا ہے