دلشاد نظمی کا شعری لہجہ محتاج تعارف نہیں۔ ان کے افکار کو جس تخلیقی زبان کی ضرورت ہے وہ اسے برتنے میں کامیاب ہیں۔ نئی زندگی کے بارے میں ان کی اپنی آئیڈیا لوجی ہے، جسے وہ اپنی شاعری ( نظم ہو یا غزل ) میں بیان کرتے رہتے ہیں، ان کی غزلوں اور نظموں کے مطالعے سے جو بات واضح طور پر ابھرتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ماحول اور معاشرے کی حقیقتوں کو افسانوی لہجے میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے، یہاں تک کہ یہ کیفیت ان کی حمدیہ اور نعتیہ بیان میں بھی ہے، حمد خداوند قدوس کے اندر ایک دعائیہ یا التجائیہ شعر مثال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے،
پانچ وقتوں کی رہے حاضری تیرے در پر
اپنا گھر چھوڑ دوں جس وقت اذاں ہو جائے
اس شعر میں جو مرکزی خیال ہے وہ اسلامی فکر سے مزیّن ہے یعنی اسلام کی پانچ بنیادی چیزوں میں سے ایک اہم چیز نماز ہے، جو احکام خداوندی کی پیروی اور رسول خدا کی اطاعت ہے۔ نماز دین کا ستون بھی ہے، لیکن آج ہمارا ماحول و معاشرہ نماز سے کتنا غافل ہو چکا اور بے گانہ ہو چکا ہے مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ذاتی طور سے کوئی بھی مسلمان اس آرزو کی تکمیل سے نجات نہیں چاہتا، مگر آج مساجد کی صف بندی اس حقیقت کا افسانوی رنگ اختیار کر جاتی ہے، شاید اس تصور کا دوسرا رخ ندا فاضلی کے ایک مشہور زمانہ شعر میں بیان ہوا ہے
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
ان دونوں اشعار کی خوبی یہ ہے کہ مرکزی خیال ان میں نماز ہے، اور اس لفظ کو شعر میں برتا نہیں گیا ہے بلکہ اس کی معنویت روح کی طرح جسم میں داخل ہے مگر دکھائی نہیں دیتی، حمد کے اس نکتۂ فکر کو دلشاد نظمی نے نعت میں بھی برتنے کی کوشش کی ہے، ایک شعر ملاحظہ فرمائیں
غم نہیں ظلم و ستم ہم پہ جو اغیار کے ہیں
ہم کہ جس حال میں ہیں احمد مختار کے ہیں
یہاں مصرعۂ ثانی میں جو دعویٰ پیش کیا گیا ہے اس کی دلیل انفرادی یا اجتماعی طور پر حقیقت سے پرے آج نظر آتی ہے، قومی اتحاد شکستہ نظر آتا ہے کوئی ایک پہلو ایسا نہیں دکھتا جس پر لوگوں کو اتفاق ہو، علماء کا اختلاف اور قائدین ملت کا نفاق ہماری رسوائی کا ایک اہم سبب ہے جس کا ادراک دلشاد نظمی کو ہے، اور ان کے درد مند دل نے اس مسئلے کو شعر میں ڈھالنے کی سعی کی ہے، غزل میں یہ احساس
مانتے ہی نہیں احکام خداوندی کو
اور کہتے ہیں کہ اللہ کو ہم مانتے ہیں
اس طرح ان کے مذہبی افکار میں جو نفسیاتی اثر کا عمل دخل ہے اس میں عصر حاضر کے ماحول سے پیدا شدہ حالات بڑے اہم ہو جاتے ہیں، جن سے ان کے اشعار کی تفہیم آسان ہو جاتی ہے دلشاد نظمی نے اپنے تخلیقی روئیے کے متعلق لکھا ہے کہ
سعودی عرب کی سر زمین نے الحمد اللہ جہاں مجھے بہت ساری چیزوں سے نوازا وہیں کہنے کے لیے مجھے نئے موضوعات بھی دیے اور نئے تجربات سے ہم کنار بھی کیا، مطالعے پر زیادہ دھیان کبھی نہیں دیا، پس جو ملا پڑھ لیا، اُردو کی مختلف ویب سائٹس سے ہمیشہ دلچسپی بنی رہی اور بہت کچھ سیکھنے کے مواقع ملتے رہے،
جہاں تک میں سمجھتا ہوں مشاعرہ سے گہری دلچسپی بھی ان کی شاعری کا ایک اہم سبب ہے اس لیے کہیں کہیں مشاعرہ بازی کا اثر بھی ان کے شعری مزاج میں داخل دکھائی دیتا ہے، لیکن ایک خاص بات یہ رہی کہ وہ مشاعرے کی سطحی روایت سے اپنی شاعری کا دامن بچانے میں کامیاب نظر آتے ہیں، در اصل جب میں نے دلشاد نظمی کی شاعری کا مطالعہ کیا تو ان کی شاعری میں مجھے سب سے خاص بات جو نظر آئی، وہ ان کے اسلوب میں فکری جہت کا بیانیہ ہے، وہی نظموں کے اندر مختصر اور غزلوں کے اندر مختصر ترین ہے، حالانکہ آپ اس سے اتفاق نہ کریں اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ غزلوں کے اندر بیانیہ کی گنجائش کہاں ،؟اور شاعری و بیانیہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے، ان سوالات کے جوابات سے پہلے ویکی پیڈیا
کے مطابق بیانیہ کی تعریف ملاحظہ فرمائیں،
قطعہ یا کہانی یا بیانیہ صحیح معنوں میں کئی واقعات کی ایک داستان ہوتی ہے جو یکے بعد دیگرے اعلی الترتیب بیان ہوتے ہیں قصہ کہانی انسانی سرشت میں شامل ہے کہانی کے ساتھ انسان کا تعلق بہت دیرینہ ہے، پتھر کے زمانے سے لے کر دور جدید تک کہانی حکایت کی ایک کڑی تھی، مثالی انسان، دیو مالائی کہانی، مافوق الفطرت وغیرہ۔ لیکن آج وہ کہانی داستان، ناول، ڈرامے وغیرہ سے ہوتے ہوئے آج مختصر افسانچے کی صورت میں موجود ہے۔
اب ذرا بیانیہ کی اس تعریف کی روشنی میں دلشاد نظمی کی ایک مکمل غزل ملاحظہ فرمائیں
قیمتیں اُونچی تھی تو اندر نہیں جا پائی لڑکی
کانچ کی دیوار تھامے رو پڑی للچائی لڑکی
دور تک ویراں سڑک تھی اور میرا ہاتھ تھامے
بھیا بھیا کہہ رہی تھی خوف سے گھبرائی لڑکی
اب کوئی ہیرو یا آئے گا ویلن، اللہ جانے
منتظر ہے اپنا گھونگھٹ کاڑھ کے شرمائی لڑکی
کمرہ نمبر تین سو پندرہ میں تو بوڑھا رکا ہے
کس پرانے شوق نے ہے نصف شب منگوائی لڑکی
دفن کر دیتے تھے پہلے لوگ زندہ بچیوں کو
اب تو قاتل عورتوں نے کوکھ میں دفنائی لڑکی
اس لیے بیٹے کا کمرہ کر دیا تبدیل ماں نے
سامنے کھڑکی میں آ کر لیتی تھی انگڑائی لڑکی
یخ زدہ ہوٹل کے کمرے نے حرارت چھین لی ہے
بجھ گئی ہے جگمگاتے شہر میں صحرائی لڑکی
نارمل تو ہو گئی دلشادؔ لیکن ہر کسی پر
اب یقیں کرتی نہیں ہے پہلا دھوکا کھائی لڑکی
آٹھ اشعار پر یہ غزل مشتمل ہے اور جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ غزل کا ہر شعر جدا گانہ معنی رکھتا ہے، گویا آٹھ اشعار کی غزل آٹھ مختصر ترین کہانیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، پہلا شعر یعنی مطلع غربت کا منظر نامہ لیے ہوئے ہے، جہاں غریبی بڑی دکانوں کو باہر سے للچائی نظروں سے دیکھ کر ہی رو پڑتی ہے، اور اپنے شوق کا گلا گھونٹ دیتی ہے، دوسرا شعر زمانے کی کریہہ صورت کو پیش کرتا ہے جہاں لڑکی کی عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے۔ تیسرا شعر ایسا لگتا ہے کہ اس میں فلمی ڈرامہ پیش کیا گیا ہے۔ جہاں ہیرو اور ویلن کا تجسس بھرا سین خلق کیا گیا ہے، چوتھا شعر مغربی کلچر سے استفادہ کرتے ہوئے ہوٹلوں کی تہذیب پر جنسی غیر آسودگی کی ایک کہانی رقم کرتا نظر آتا ہے
پانچواں شعر قدیم و جدید روایات کا تجزیہ ہے اور اس میں معصوم بچیوں پر ہونے والے مظالم کا دردناک بیان ہے، چھٹے شعر میں ایک دور اندیشی کا ذکر ہے جسے ماں پہچان لیتی ہے
ساتویں شعر میں بھی جنسی بے راہ روی کا ترجمان ہے، جہاں شہری ہوٹل کلچر دیہی زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے، آٹھواں شعر یعنی مقطع میں آج کی لو اسٹوری کا نتیجہ بیان ہوا ہے، جو تجربے کی بنیاد پر ہے، اس طرح کی کئی غزلیں کوئی ایک لمحہ رقم نہی کے مسودے میں موجود ہیں، ،، پہلی غزل میں ہر شعر ایک مختصر ترین بیانیہ کے ساتھ ہی رقم ہوا ہے، ان مثالوں کے اندر لفظیات کی پلاٹ سازی، جزیات نگاری، اور معنویت کا شاعر نے جو فکری نظام قائم کیا ہے وہ مختصر ترین بیانیہ اور افسانوی جہت سے پوری طرح متاثر ہے جس کے اندر موجودہ سماج کی حقیقتوں کی عکاسی کی گئی ہے اس میں غزلیہ آرٹ کا بہترین حسن پہلی غزل کوئی ایک لمحہ رقم نہیں، میں موجود ہے، جو ایک شعر میں سمٹ آیا ہے، وہ خوبصورت شعر بھی ملاحظہ فرمائیں جس کا مصرع ثانی کمال کا ہے
کسی پروہت پہ دیو داسی نثار ہو جائے تو عجب کیا
گھٹی گھٹی جسم کی خموشی پکار ہو جانا چاہتی ہے
دلشاد نظمی کی غزلوں میں بیان کا ایجاز و اختصار ہی ایک لطف لیے ہوئے ملتا ہے جہاں خیال کی ندرت اور فکر کی جدت سرشاری عطا کرتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
خواب کی کون سی تعبیر گڑھی جا رہی ہے
خانۂ ہجر میں تنہائی بڑھی جا رہی ہے
میں اپنا نام لکھوں کینوس کے کونے میں؟
برش نے اس کا مکمل بدن کیا ہے ابھی
حدِ نگاہ وہی کنکریٹ کا صحرا
خیال دشت کو آباد کرنا چاہتا ہے
ہزار طرح سے مجھ کو ٹٹولتے ہیں لوگ
مری طرح مجھے اک بار کون دیکھتا ہے
کئی آوازیں کہنے کو پسِ منظر سے آتی ہیں
جو اندر تک اُترتی ہیں، وہی اندر سے آتی ہیں
ایسے ایسے بہت سارے خوبصورت اشعار دلشاد نظمی کی غزلیہ شاعری کا حصہ ہیں مگر مجھے لگتا ہے کہ ان کا کمال زندگی کے مسائل کے بیان میں ہے جہاں سماجی حقیقت نگاری کو انہوں نے شعر میں برتا ہے، وہاں زیادہ نکھرا ہوا ہے ایک خوبصورت سا شعر مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں
جھکی کمر کو اسی کی ہمت کے واسطے پھر اُٹھا رہا ہے
جوان بیٹے کی نا اُمیدی کا باپ قرضہ چکا رہا ہے
ایسا لگتا ہے کہ یہ شعر معراج فیض آبادی کے مشہور زمانہ شعر
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
کی جزئیات نگاری کی نئی تفصیل بن گیا ہے کہیں کہیں ایسا لگتا ہے کہ نا مانوس لفظ کو بھی افسانوی کردار بنا کر انہوں نے غزلیہ شعر کے پیکر میں ڈھال دیا ہے ایک شعر کو پڑھتے ہوئے مجھے کچھ ایسا ہی گمان ظاہر ہوا وہ شعر پیش ہے
رہ جنوں میں امیر زادی شکار ہو جانا چاہتی ہے
کسی مزارعے کا ہاتھ تھامے فرار ہو جانا چاہتی ہے
یہاں لفظ مزارعے اردو غزل کے لیے نا مانوس ہوتے ہوئے بھی ایک افسانوی کردار لیے پر اسرار سا لگتا ہے کسان اور کاشتکار کو تو اردو دنیا جان رہی ہے، لیکن مزارعے ایسا لگتا ہے کہ داستان کی وادی سے نکلا ہوا کوئی مافوق الفطری کردار ہے جو چشم حیرت میں تعجب و تجسس کا نمائندہ ہے، کہیں کہیں ایسے الفاظ بھی ان کی غزلوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں متن کی معنویت بیرون متن میں ملتی ہے۔۔ ۔۔ مثلاً یہ شعر
سوال ننھا فرشتہ کرتا ہے جب کبھی توتلی زباں سے
پڑھی لکھی شخصیت اچانک گنوار ہو جانا چاہتی ہے
یہاں لفظ گنوار کو اس کے اصل معنی میں لے کر اس شعر کی تفہیم تک رسائی حاصل نہیں ہوتی ہے، بلکہ گنوار کے مد مقابل بچوں کی معصومیت کے سامنے بزرگوں کی نادان محبت ہے، جو معصومیت سے نا آشنا ہیں شنا سائی چاہتی ہے
مختصراً یہ کہ دلشاد نظمی کی نظمیں ہوں یا غزلیں ان کے بیان میں ایک ایسی افسانوی دنیا ملتی ہے کہ جو موجودہ عہد کے مسائل زیست کی ترجمان ہے، بالخصوص غزل جسے بعض لوگ بیانیہ کا حصہ نہیں مانتے انہیں دلشاد نظمی کی غزلوں کا مطالعہ کرنا چاہئیے، دلشاد نظمی کی شاعری
افسانوی جہت سے قریب تر ہے۔ انہوں نے اپنے شعری تلازمے اور پیکر طرازی کی بنیاد آج کی زندگی کے مسائل پر رکھی ہے جہاں دل کی دھڑکن مختصر ترین بیانیہ کی صورت شعری پیکر کا رُوپ دھار چکی ہے، اور میں سمجھتا ہوں اُردو شاعری کے لیے یہ خوش آئند بات ہے،
پروفیسر سید اشہد کریم۔ ہیڈ ڈپارٹمنٹ اردو
ایس وی پی کالج بھبھوا،
کیمور، بہار , 821101
mob: 9616730727
[email protected]