اُبھرے گا حق نگاہ میں اُترا ہوا سخن
لفظوں کے پل صراط سے گزرا ہوا سخن
ممکن ہے میں بھی قصۂ پارینہ ہو رہوں
کس کس کو یاد رہتا ہے گزرا ہوا سخن
سب کو بہت گمان تھا طوفان آئے گا
بیٹھا نہ جھاگ بن کے وہ بپھرا ہوا سخن
اپنے کہے ہوئے کے گماں نے شکست دی
اک مرد کی نگاہ میں خسرا ہوا سخن
معنی سے واسطہ ہے نہ تہہ داری سے شغف
لوگوں کو صرف چاہئیے اُبھرا ہوا سخن
لمبی ریاضتوں کا ہے دلشادؔ یہ ثمر
بس اک ذرا سا آیا ہے سدھرا ہوا سخن