رستہ ڈھونڈ ہی لیتا ہوں میں گھرتی دیواروں کے بیچ
زندہ رہنا مشکل ہوتا ورنہ مکاروں کے بیچ
ہوا زیادہ بھرنے کا نقصان تو میں نے دیکھ لیا
اب تو دم بھی پھول رہا ہے اتنے غباروں کے بیچ
پورب پچھم اُتر دکھن چاروں جانب سے یلغار
میری حقیقت مرکز جیسی میں ہوں گھرا چاروں کے بیچ
تم کو اپنی سمت کا اندازہ اب تک نہ ہو پایا
جگنو ہمت دکھلاتا رہتا ہے اندھیاروں کے بیچ
اُونچی گردن والے نخوت سے اب مجھ کو تکتے ہیں
میری اک بونی سی عبارت اتنے فن پاروں کے بیچ
ٹائر رگڑ کھاتے ہیں ہارن چیختے ہیں پھر سڑکوں پر
پیدل چلنے والے گھِر جاتے ہیں جب کاروں کے بیچ
اب تو صحافت شعبدہ بازی جیسی ہے دلشادؔ یہاں
سچی خبریں جھوٹی ہو جاتی ہیں اخباروں کے بیچ