نظر میں خود داریاں تھیں اب تک بحال ورنہ
جہاں کی آنکھوں میں رقص کرتا سوال ورنہ
گھرانے اک ایک کر کے خیموں میں بٹ رہے ہیں
ابھی بزرگوں کا ہے مجھے کچھ خیال ورنہ
بدن کو چھڑکاؤ کی ضرورت رہی ہمیشہ
تپش کی لیکن ہوئی نہ کوئی مجال ورنہ
میں چاہتا تھا قدم سے اس کے قدم ملانا
بدلتی رہتی تھی اس کی ہر لمحہ چال ورنہ
مجھے بھی اچھی رفاقتوں کی طلب ہے لیکن
میں دب کے اپنے ہی بوجھ سے ہوں نڈھال ورنہ
تجھے ہدایت کی روشنی دینا چاہتا تھا
تُو آرتی کی سجائے بیٹھی تھی تھال ورنہ
مصالحت کی ہے جاری دلشادؔ نظمی کوشش
وہی بتائے کہ اس کا کیا ہے خیال ورنہ