کھنڈر بچے ہیں فلسطین کے بھرم کے لیے
فصیلیں اٹھنے لگیں ہیں یروشلم کے لیے
مری زمیں پہ عدو دندناتے پھرتے ہیں
مجھ ہی کو سوچنا پڑتا ہے ہر قدم کے لیے
ہمارے زخموں کو پھاہا بھی اک نصیب نہیں
ہزاروں ہاتھ بڑھیں ان کی چشم نم کے لیے
مجھے بھی ناز بہت اپنے انکسار پہ ہے
میں اپنا میں نہیں چھوڑوں گا تیرے ہم کے لیے
سیاہ کرتا نہیں خود نمائی میں صفحے
کسی سے بھیک بھی مانگی نہیں قلم کے لیے
تمام خواجہ سرا سرحدوں سے بھاگ گئے
بحال ہوتی رہیں لونڈیاں حرم کے لیے
نمازیوں کے نکلنے کا وقت ہے، مائیں
علیل بچوں کو لے کر کھڑی ہیں دم کے لیے
یہ زندگی یوں ہی دلشادؔ سوتنوں کی طرح
زیادہ چاہ کے لڑتی ہے روز کم کے لیے