بنے گی کیسی صورت دیکھتے رہیے یہاں کل کی
لکڑ ہاروں نے جب تعریف کی ہو سبز جنگل کی
اُبھر آئیں ہیں میری فکر میں نیلی رگیں کیسی
کہانی پڑھ رہا تھا رات میں ناگ اور صندل کی
کنول کے پھول کی تعریف کیجئے شوق سے لیکن
جکڑ لینے کی عادت بھی بیاں کیجئے گا دلدل کی
وہی مجھ کو بتانے لگ گیا ہے میرا مستقبل
خبر جس کو نہیں ہے خود ہی اپنے دوسرے پل کی
یقیں سے تو نہیں امکاں بھری نظروں سے ہی دیکھیں
ہوا کے سامنے کیا حیثیت مغرور بادل کی
ہوا کی سر پھری دستک شکستہ در پہ ہے جاری
کسی مظلوم سی حالت ہوئی لرزیدہ سانکل کی
قلم کے نقش پر دلشادؔ چلنا ہے اُٹھا کے سر
اگرچہ جانتا ہوں میں، ہے کیسی راہ مقتل کی