مشکیزے کا بازو تپتی ریت بھگوئے گا
دیکھنا اب کہ دریا پیاسی لاشیں دھوئے گا
دکھ کا بستر، فکر کی پیٹی، بوجھ ضرورت کا
ایک مسافر چلتی ٹرین میں کیا کیا ڈھوئے گا
پاگل لڑکی مان بھی جا اب چن لے کوئی رنگ
ورنہ آنسو کب تک تیرا کاجل دھوئے گا
سامنے والی چھت پہ جھجکتا چاند گھڑی بھر کا
دن نکلے تک لڑکا دھوپ میں بے سدھ سوئے گا
دیکھ ذرا دلشادؔ یہ دنیا کتنا ہنستی ہے
آخر اپنے اندر اندر کب تک روئے گا