ایڑیاں اُونچی کئے وہ قد بڑھانے لگ گئے ہیں
مجھ کو اس منزل تک آنے میں زمانے گئے ہیں
جس قدر بھی پی لے کوئی مسئلہ تو ظرف کا ہے
لوگ تو دو گھونٹ میں ہی ڈگمگانے لگ گئے ہیں
ہم نے تو اپنا مسیحا چُن لیا تھا آپ کو ہی
آپ تو جلاد نکلے خوں بہانے لگ گئے ہیں
بھیڑ کا حصہ بنا کر نوجوانوں کو یہاں پر
اپنے اپنے کام پر سارے سیانے لگ گئے ہیں
چاند سا چہرہ گلی سے آج رخصت ہو رہا ہے
میری پلکوں پر ستارے جھلملانے لگ گئے ہیں
بس ذرا سا وقت مجھ کو چاہئیے بچوں سے میرے
کس قدر مصروف ہیں جب سے کمانے لگ گئے ہیں
جلد ہی دلشادؔ نظمی ٹوٹ جائے گی یہ بیعت
سامنے آ کر منافق قسمیں کھانے لگ گئے ہیں