ہم نے سحری کی تھی باقر خانی سے
ہمسائے نے روزہ رکھا پانی سے
مجھ پر ہنسنے والا عکس بھی میرا ہے
خود کو دیکھتا رہتا ہوں حیرانی سے
اپنی مرضی سے چلتی ہے یہ دنیا
تم بھی یار اُلجھ بیٹھے دیوانی سے
کیا رونا موجودہ مسائل کا رونا
لطف اُٹھایا جائے قصہ خوانی سے
ہجرت کرنے والوں کو انصار ملے
تم نے کیا پایا ہے نقل مکانی سے
آؤؑ ورنہ برف بدن ہو جاؤ گے
چادر پھٹ جائے گی کھینچا تانی سے
آخر ریت ہی ہونا ہوتا ہے اک دن
چٹانیں لڑتی رہتی ہیں پانی سے
میں نے آسانی کو مشکل سے پایا
اُس نے مشکل پیدا کی آسانی سے
ساتھ لیے پھرتا ہے دوائیں ہر لمحہ
شاید کام لیا تھا خوب جوانی سے
طیش میں آ جاتا ہے ہو کا عالم کیوں
وحشت کیا کیا پوچھتی ہے ویرانی سے
یہ بھی تو دلشادؔ بہت ممکن ہے اب
پردہ پوچھ رہا ہو کچھ عریانی سے