مرے سخن کو سزا میرے یار دے رہے ہیں
زبان والے ہی مرتد قرار دے رہے ہیں
وہ چاہتے ہیں رہوں عمر بھر میں شرمندہ
تو حق بھی بھیک کی صورت اُدھار دے رہے ہیں
جو آج تک کوئی وعدہ وفا نہ کر پائے
تسلیوں سے بھرا اعتبار دے رہے ہیں
ہیں کیسے لوگ حسد کے جنون میں یارو
وہ خود کو وقت سے پہلے ہی مار دے رہے ہیں
معاملات نبھانا ہی بس نہیں آتا
عبادتوں میں تو عمریں گزار دے رہے ہیں
وہ چاہتے ہی نہیں ہیں مدد کریں دلشادؔ
تسلیاں تو مگر بے شمار دے رہے ہیں