نومبر۸۸ ۱۹ء کی ادبی شب آسنسول کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ جدّ امجد سیدّ عبدالحمید مونگیری کے نام سے۔ بزمِ حمیدی وجود میں آئی، اور اس بزم کے تحت ایک تاریخی کُل ہند مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا، کئی نہج سے یہ مشاعرہ اپنی تاریخ رقم کرتا نظر آیا۔ عالمی شہرت یافتہ ماہرِ فن استاد شاعر جناب فضا ابن فیضی جہاں اس کی صدارت کر رہے تھے وہیں مشاعرے کی کامیابی کے ضامن کہے جانے والے اپنے مخصوص لہجے کے مشہور و معروف نقیب مشاعرہ جناب عمر قریشی کی سحر انگیز نظامت مشاعرے کو صبح صادق تک کامیابیوں سے ہمکنار کرتی رہی، بزم حمیدی کے چیرمین ایس ایم جلال، سرپرست الحاج عبدالرحمٰن سلفی، و ایس ایم خان، صدر محمد مسلم ناز قریشی، وغیرہم نے اس مشاعرے میں ہندوستان کے مشہور معروف شعراء کرام جن میں فضا ابن فیضی، والی آسی، نظر ایٹوی، طاہر فراز، تشنہ عالمی، نور اندوری، نواز دیو بندی، ڈاکٹر آفاق فاخری، رہبر حمیدی، جنوں اشرفی۔ عادل لکھنوی، اسلم الہ آبادی، حق کانپوری، نسیم نکہت، تاجور سلطانہ، رشید عارف، رگھو ناتھ پرشاد گستاخ، بازغ بہاری، حبیب ہاشمی، شاہد یوسفی، عرفان بنارسی، جیسے شعراء کو یکجا کیا، وہیں بہار کے ایک نوجوان شاعر دلشادؔ نظمی بھی اسٹیج پر جلوہ افروز تھے، ایک سے بڑھ کر ایک شاعر کی صف میں یہ نوجوان شاعر دلشادؔ نظمی اپنی عمر کے ساتھ خود کو تنہا اسٹیج پر محسوس کرتا نظر آیا، لیکن جوں ہی اس کپکپاتی سردی کی نصف شب، نقیب مشاعرہ نے بہار سے تشریف لائے اس نوجوان شاعر کو سامعین کے رُو برو پیش کیا تو خود میں سمٹے سامعین سردی کو بھول کر دلشادؔ نظمی کی شاعری اور مترنم آواز کی بدولت گرمجوشی کا مظاہرہ کرتے نظر آئے، اور سامعین کے ساتھ ساتھ شعراء کی داد نے دلشاد نظمی کی ضیافت کی، جہاں ایک سے بڑھ کر ایک شاعر اور ترنم کے جادو گر موجود ہوں وہاں اس نوجوان کی اتنی پذیرائی باعث فخر و انبساط تھی اس پذیرائی نے شاعر کو مقبولیت کے اس مقام تک پہنچا دیا، جہاں آج بھی دلشادؔ نظمی، اُردو کے ساتھ ساتھ ہندی محفلوں میں مقبول و معروف ہیں، اور فی الوقت ہندوستان بھر میں جھارکھنڈ کی نمائندگی کر تے نظر آ رہے ہیں، مجھے یہ کہنے میں بالکل عار نہیں کہ موجودہ وقت کے تناظر میں دلشاد نظمی کی فکر انگیز شاعری اور پیشکش بہار و جھار کھنڈ کے اسلاف کی آبرو ہے، ان کی شاعری کا اسلوبِ بیان منفرد اور دلپذیر ہے۔ گزرتے حالات پہ ان کی گہری نگاہ ہے۔ ان کی نظموں، غزلوں قطعات کے مطالعے سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، فکر کے سمندر کا یہ شناور اپنی شعری تخلیق کے بکھرے خیالات کو سمیٹ کر کوئی ایک لمحہ رقم نہیں کے نام سے مجموعۂ غزلیات لے کر حاضر ہے، مجھے اُمید ہے کہ ان کی فکری شاعری جھارکھنڈ کی ادبی فضا میں ایک نئے باب کے اضافے کا سبب بنے گی، اللہ دلشادؔ نظمی کی شاعری اور شاعر کو ادبی تعصّب سے محفوظ رکھے، آمین
سیّد وقیع منظر
آسنسول، مغربی بنگال 91.9332295160