سمجھ رہا ہوں میں اس کرشمے سے کون حیران ہو رہا ہے
نظر سلامت میں آ رہا ہوں تو کس کا نقصان ہو رہا ہے
جو میرے پہلو سے لگ کے چلنے کو اپنی پہچان مانتا تھا
کسی کے دامن کو تھامے محفل میں مجھ سے انجان ہو رہا ہے
یہاں کی مٹی میں بس رہے ہیں تمہارے بچوں کے شہری سپنے
تمہیں سمجھنا پڑے گا در اصل گاوں ویران ہو رہا ہے
ہے عین ممکن عوام کو تالیاں بجانے کا حکم دے دے
سنا ہے خواجہ سرا ہی اب سلطنت کا سلطان ہو رہا ہے
کہا تھا اُس سے کہ اپنی پہچان اور قیمت کا علم رکھنا
جہاں تہاں برتا جانے والا وہ کوئی سامان ہو رہا ہے
اب آ گیا ہوں تو چاہتا ہوں ذرا سا قد اس کا ناپ ہی لوں
سنا ہے گز بھر کی حیثیت کو لیے کوئی تھان ہو رہا ہے
گمان اور زعم سے نہ دلشادؔ جیتی جائے گی کوئی بازی
یقین کو التوا میں ڈالے وہ رہنِ امکان ہو رہا ہے