جس پہ آواز کی بیداری کا احسان رہا
اس کو لہجے کی حفاظت کا بڑا دھیان رہا
عشق کی راہ میں تقلید نہیں کی میں نے
راستہ کٹتا گیا چال پہ ایقان رہا
دل کبھی اس پہ فدا ہو نہ سکا ملکہ کا
شاہ بس سلطنت جسم کا سلطان رہا
کوفہ والوں نے ہر اک شئے کو مٹانا چاہا
اہل ایماں جو بچا لائے وہ ایمان رہا
اس کے ہی نام سے منسوب تھے میرے قصے
اک وہی چہرہ مری شہر میں پہچان رہا
اک ذرا اور ٹھہرتا تو تماشہ ہوتا
وہ چلا بھی گیا اور آئینہ حیران رہا
اور دلشادؔؔ ارادے کے سوا کچھ بھی نہ تھا
راہ غالب کی چنی، میر کا سامان رہا