خودی کی آساں نہیں ہے بیعت، محال ہے خود کا پیر ہونا
کہ دورِ ناساز گار میں تو کمال ہے با ضمیر ہو نا
کسی کسی کو خد ائے بر تر کچھ ایسے اعزاز بخشتا ہے
فقیر ہو کر امیر ہونا، امیر ہو کر فقیر ہونا
خموش بیٹھے ہیں تم سے بہتر زبان کے وضعدار چہرے
ہیں تم پہ خوش فہمیاں جو غالب، تمہیں مبارک ہو میر ہونا
ڈرا کرو اُن زوال لمحوں کی پُر اَنا ساعتوں سے ورنہ
بہت بڑا بننے کی ہوس کو جو پیش آئے صغیر ہونا
ہمارا ملنا تو مسئلوں سے فرار کا ہے کھلا بہانہ
نہ رانجھے پن کی جھلک ہے مجھ میں، نہ تیری قسمت میں ہیر ہونا
دراز سائے کے قد کو جھوٹی انا ہی جھوٹا غرور بخشے
غروب ہونے کا فلسفہ تو، ہے تیرگی کا اسیر ہونا
سخن میں نقطے کی حیثیت سے میں خود کو دلشادؔ دیکھتا ہوں
ہے زاویوں کو جو مجھ سے نسبت، مجھے ہے لازم لکیر ہونا