عجیب دور ہے حقدار کون دیکھتا ہے
تعلقات میں معیار کون دیکھتا ہے
وہ دیکھتا ہے فقط اپنے فائدے کے لئے
وگرنہ آپ کو بیکار کون دیکھتا ہے
نظر بھی قسط چکانے کی ہو گئی عادی
نگاہ بھر کے مرے یار کون دیکھتا ہے
کبھی عوام سمجھ کر ہی دیکھ لے ورنہ
ترا حرم ترا دربار کون دیکھتا ہے
خموش ہونٹوں پہ ہے مصلحت کی ہاں لیکن
دھڑکتے سینوں کا انکار کون دیکھتا ہے
کہیں پہ جا کے یہ آنکھیں بھی تھکنے لگتی ہیں
پھر اس کے بعد لگاتار کون دیکھتا ہے
ہُنر بھی اپنا دکھا دعوے دار فہم و سخن
لباس، مسند و دستار کون دیکھتا ہے
ہزار طرح سے مجھ کو ٹٹولتے ہیں لوگ
مری طرح مجھے اک بار کون دیکھتا ہے
خود اپنے آپ سے دلشادؔؔ خوف ہے مجھ کو
اکیلے پن میں یہ ہر بار کون دیکھتا ہے