حیا میں لپٹے اُجال چہرے بھی سر برہنہ نکل رہے ہیں
ہمارے گاوں میں آئے دن اب کپاس کے کھیت جل رہے ہیں
کسی کو فرصت نہیں ذرا سی، کہ میٹھے لہجے میں بات کر لے
مری نگاہوں کے آئینے میں تمام چہرے بدل رہے ہیں
یہ وقتی ٹھنڈک، گلاب پانی کے جیسی فرحت تو دے گی، لیکن
نگار خانے بدلتے موسم کے رخ پہ تیزاب مل رہے ہیں
نئی سحر آ کے دیکھ لے گی ہر اک بدن کا سیاہ ملبہ
الاؤ کے ارد گرد سارے مہیب سائے اُچھل رہے ہیں
جدید دنیا ہزار صدیوں کے پھیلے جنگل میں پھنس گئی ہے
جو ڈایئناسور ہیں وہ ہر شئے چبا رہے ہیں، کُچل رہے ہیں
اور اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ ذائقے میں نمک نہیں ہے
ہمارے اعضاء حصولِ لذت کی آگ میں روز گل رہے ہیں
پلٹ کے شب خون مارنے میں ہیں طاق دلشادؔ یہ مسافر
ابھی تو ہاتھوں میں یونہی زیتونی ٹہنیاں لے کے چل رہے ہیں