میں لوٹ آیا دوستوں کا قرض یوں اُتار کر
منافقوں کے ساتھ ایک شام پھر گزار کر
غلام ہو رہی ہیں خواہشیں کسی کے سامنے
ہم ایسے لوگ جی رہے ہیں خواہشوں کو مار کر
جو حرف ناشنیدہ تھے وہ سرخیوں میں آ گئے
میں تھک گیا ہوں خود کو لفظ لفظ میں اُتار کر
بھٹکتے جگنوؤں نے اطلاع دی ہے دشت میں
ہوائیں بین کر رہی ہیں روشنی کو مار کر
تجھے خود اپنے نام کی پڑی ہوئی ہے اس لیے
اے معتبر سخن شناس مجھ کو مت شمار کر
بہت بھلی لگی تری خجالتوں بھری نظر
میں فتحیاب ہو گیا ہوں آج تجھ سے ہار کر
خموش رہ، مری زبان کھل گئی تو دیکھنا
ترا بھرم رکھے گی ایک آن میں اُتار کر
بہت ہوا مصالحت سے دل نہ شاد ہو سکا
خرد کا بار اُتار دے جنوں کو اب سوار کر