خود ہی چلنا ہے مسافر کو چلاتی نہیں ہے
روشنی دکھتی ہے آواز لگاتی نہیں ہے
کیسی الجھن میں تری یاد نے ڈالا ہے مجھے
دیکھنا خواب بھی ہے نیند بھی آتی نہیں ہے
لوٹ جاتی ہے خوشی کیوں مرے در سے آ کر
اک اُداسی ہے جو گھر سے مرے جاتی نہیں ہے
کام ادھورے میں سبھی کرنے میں مشغول ہوا
اب تری یاد بھی اس درجہ ستاتی نہیں ہے
جب وہ لڑکی تھی بہت چاہ رہی تھی ملنا
اب وہ عورت ہے مگر آنکھ ملاتی نہیں ہے
یاد آتی ہے تو دلشادؔ کسک اُٹھتی ہے
اس کی اب یاد مجھے اُتنا رُلاتی نہیں ہے