آگ میں جلتا ہوا تڑپے جو پانی کے لیے
ایسا کردار ضروری ہے کہانی کے لیے
آجکل بنتی ہے افواہ بھی ہجرت کا سبب
کشت و خوں شرط نہیں نقل مکانی کے لیے
صبح سے شام تلک خود سے لڑائی ہوئی ہے
اب دعا مانگوں ذرا دشمنِ جانی کے لیے
ہر نئی چیز تعلق سے ہے عاری شاید
ربط ملتا ہی نہیں ان میں پرانی کے لیے
صرف خاکہ ابھی تیار کیا ہے میں نے
اس کو سوچوں گا بہت لفظ و معانی کے لیے
آج کیوں میری عیادت کو نہیں آتے ہیں
کل جو آئیں گے میری فاتحہ خوانی کے لیے
آنے والوں کو بتانا کوئی دلشادؔ بھی تھا
یہ غزل رکھ لے میاں میری نشانی کے لیے