میرا خیال تھا کہ شعر کہنے کے مقابلے نثر لکھنا نسبتاً آسان ہے۔ لیکن آج جب مجھ پر یہ افتاد پڑی ہے تو احساس ہو رہا ہے کہ یہ میری بھول تھی۔ ممکن ہے یہ احساس اس لیے بھی شدید ہو کہ میں اس میدان کا شہسوار کبھی نہیں رہا۔ مزید یہ کہ خود اپنے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے، تو یہ میرے لیے اور بھی مشکل کام ہو گیا۔ لہٰذا میں نے اس سے فرار کی ایک آسان صورت یہ نکالی ہے کہ مختصراً کچھ باتیں کہہ کر گذر جاؤں۔
تسکین ذوق کے لیے ابتدا میں دوستوں کو پریشان کرتا رہا۔ جناب نواب ظفر نوابؔؔ(جمشیدپور) سے علم عروض کے متعلق تھوڑی بہت معلومات حاصل کیں، پھر ملازمت نے اس راہ سے بیگانہ کر دیا۔ پرچوں میں شائع ہونا بہت کم ہوا۔ اس میں کچھ تو میری تساہلی کا دخل رہا اور کچھ مدیر حضرات کی بے توجہی کا، سو اس میدان سے گذر کم کم ہوا۔ آج اس زمانے کو یاد کرتا ہوں اور اپنی پرانی تخلیقات پر نگاہ ڈالتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ مجھ میں ہی کمی تھی۔ بہرحال، سعودی عرب جانے کے بعد ایک ایسی دنیا سے میرا تعارف ہوا، جہاں میری فکر کو نئی راہیں ملیں۔
ایک نام جو میرے لیے بہت محترم رہا اور ہمیشہ رہے گا، وہ ہے جناب تسنیم فاروقی کا، جن کی رہنمائی نے مجھے شعر کہنے کا سچا شعور بخشا، لیکن سعودی عرب پہنچ کر یہ سلسلہ منقطع سا ہو گیا۔ میری معاشی مصروفیات نے مجھے بہت اُلجھائے رکھا۔ جناب اقبال قمر ( جہلم، پاکستان) نے ہمیشہ مجھے بہترین مشوروں سے نوازے، میری رہنمائی فرمائی اور ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں ان کے علاوہ چند ایک احباب جو عمدہ شاعر ہیں مثلاً جناب ثانی اسلمؔ، شجاع انورؔ، ظفرؔہاشمی، پرویز رحمانی۔ یہ سارے لوگ ہمیشہ میرے ذوق کو مہمیز کرتے رہے۔ سعودی عرب کی سرزمین نے الحمد للہ جہاں مجھے بہت ساری چیزوں سے نوازا، وہیں کہنے کے لیے نئے موضوعات بھی دیے اور نئے تجربات سے ہم کنار بھی کیا۔ سعودی عرب جا کر پتہ چلا کہ میں اب تک دوسری دنیا میں تھا، یہ ایک دوسری دنیا ہے۔
جھلستا جسم مسائل کی ترجمانی ہے
ہر اک ریال کے پیچھے کوئی کہانی ہے
ایک نام جس نے ابتداء میں میری رہنمائی میں نمایاں رول ادا کیا وہ تھا جناب گھائل فریدی مرحوم (راجگانگ پور اُڈیشا) کا جنہوں نے ملک کے مختلف گوشوں میں مجھے متعارف کرایا، باغ و بہار طبیعت کے مالک اور ایک مقتدر و معتبر علمی شخصیت ڈاکٹر قاسم خو رشید نے ہمیشہ مجھ ناچیز کی بھر پور حوصلہ افزائی فرمائی۔ سرزمینِ بنگال میں موجودہ ادبی منظر میں جناب سید وقیع منظر اساتذہ کی فہرست میں ایک نمایاں و منفرد نام ہے، تقریباً پینتیس سالہ دوستی کی دوسری شکل کچھ یوں ہے
مانتا ہوں تجھے استاد میں اپنا منظر
اس سے پہلے تُو مرا دوست ہے اچھا والا
مطالعہ پر زیادہ دھیان کبھی نہیں دیا بس جو ملا پڑھ لیا، مگر انٹر نیٹ کی دنیا سے وابستہ رہا۔ اردو کی مختلف ویب سائٹس سے ہمیشہ دلچسپی بنی رہی، اور بہت کچھ سیکھنے کے مواقع ملتے رہے۔ میں شکر گزار ہوں خصوصاً اپنی شریک حیات شبانہ جمال کا، جنھوں نے گھریلو ذمہ داریاں سنبھال کر مجھے اتنا وقت مہیا کرایا کہ میں اپنا شعری مجموعہ اطمینان و انہماک سے مکمل کر سکوں۔ میں ان تمام دوستوں کا شکر گزار ہوں جن کی دعائیں ہمیشہ مری رہنمائی میں شامل رہیں جن میں ایک نام مشہور و معروف شاعر جناب انور کمال کا ہے اور دوسرا انجم اظہر کا۔
میرا پہلا شعری مجموعہ آپ کے ہاتھوں میں ہے، یہ فیصلہ میں اہل نظر پر چھوڑتا ہوں کہ میں اپنے جذبات و احساسات، اور اپنے کچے پکے افکار کو شعری قالب عطا کرنے میں کہاں تک کامیاب ہو پایا ہوں اور کہاں کہاں ٹھوکر کھائی ہے۔ مجھے آپ کی آرا کا شدت سے انتظار رہے گا۔
دلشادؔ نظمی
بایئس اکتوبر دو ہزار تیئس