جو راویوں کی روایتوں سے الجھ کے شاید گڑھی ہوئی ہے
تو خاک دامن پہ آ آنسوؤں کی یہ بیل کیسی کڑھی ہوئی ہے
مہک رہا تھا کھنکتا لہجہ نظر کی تحریر اجنبی تھی
یقیں کو لیکن گمان گزرا کتاب شاید پڑھی ہوئی ہے
ادھر کنارے پہ ایک لذت بھری تھکن منتظر ہے لیکن
سنبھل کے لنگر اٹھائیے گا کہ سر پہ ندّی چڑھی ہوئی ہے
جب آ گہی کا عذاب اترا ہوا نے محتاط کر دیا تھا
خیالِ امکاں کی ایک ساعت صدی سے آگے بڑھی ہوئی ہے
وبال جاں بن نہ جائے دلشادؔ بے سبب آپ کی خموشی
انا نے کیوں کھردرے بدن پر یہ کھال آ خر مڑھی ہوئی ہے