کسی کا عکس نظر کے کھلے قفس میں تھا
خیال دوسرے منظر کی دسترس میں تھا
اک اجنبی سے تعارف کا لمس کیا کہیے
بہت خلوص خجالت بھری ہوس میں تھا
تمام عمر وہی محورِ طواف رہا
اسی کا ذکر مسلسل ہر اک نفس میں تھا
میں جھوٹ موٹ کا آقا بنا رہا برسوں
مرے چراغ کا جن شاطروں کے بس میں تھا
بس اس کا نام لیا کی سفر کی بسم اللہ
غرض نہیں تھی کہ دن سعد یا نحس میں تھا
وہ در کھلا تو ضیا منکشف ہوئی ورنہ
مرا خیال تو ظلمت زدہ قفس میں تھا
حصار ذات کی دلشادؔ بندشیں ٹوٹیں
کوئی مکاں اسی ملبے کے خار و خس میں تھا